ھم ایک ایسے دور میں رہ رھے ھیں، جہاں بعض قومیں، اپنے معاشرہ کے پسے ھوئے اور کمزور لوگوں کو خصوصی رعایات دیتے ھیں تا کہ نہ صرف وہ کسی کا محتاج نہ رھے بلکہ خود کو کسی سے کمتر اور اس معاشرہ سے الگ محسوس نہ کرے. اگرکسی خاص بولی، رنگ، نسل، عقیدہ، مذھب کے حامل لوگ کم تعداد میں موجود ھیں تو انکو، تعلیمی درسگاھوں، ذراعت، صنعت، چھوٹے کاروبار میں مدد فراھم کرتے ھیں تا کہ نہ صرف انکے احساس محرومی کا ازالہ ھو، بلکہ وہ لوگ خود کو اس معاشرہ کا حصہ سمجھ کر، اس معاشرہ کے ترقی میں اپنا حصہ ڈالے. پہلی نظرمیں تو شاید لوگوں کو یہ لگے، کہ معاشرہ کے محروم حصوں کے مدد سے اکثریت کے حقوق کو ٹھیس پہنچتے ھیں، لیکن، آج تک جتنے بھی سروے ھوئے ھیں اس سے یہ بات ثابت ھوئے ھیں کہ جس معاشرہ نے بھی پسے ھوئے یا اقلیتی لوگوں کی حوصلہ افزايی کی ھیں، اقلیتی لوگ اس معاشرہ کو تعلیمی، اقتصادی، تحقیقی، صنعتی اور دفاعی میدانوں میں کئی گنا زیادہ فایدہ پہنچایا ھے۔ ان معاشروں کے اخلاقی جرات کسی آسمانی کتاب سے ھدایات کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ معاشرہ کے خیرخواھوں کے لمبے جدوجہد کے نتیجے ھیں۔ محقق اور دانشور اپنے تحقیقوں سے لوگوں کے شکوک و شبہات کے جواب دیتے رھے، تو سوشل ایکویسٹس لوگوں کو قریب لانے اور ان میں آگاھی پیھلانے کیلئے جدوجہد کرتے رھے اور سیاستدان قوانین بناتے رھے۔ ایسے معاشروں میں، انسانوں کے جان و مال کے علاوہ، جنگلی پودوں، جانورں، پانی، زمین اور ھوا کو بھی نقصان پہنچانا جرم ھے. حتی کہ اگر حکومتی اقدام، یا غفلت سے بھی کسی کو مالی یا جانی نقصان پہنچتا ھے، تو وہ شخص یا لوگ حکومت سے ھرجانہ کا مطالبہ کرسکتے ھیں۔
مجھے پتہ ھے کہ لوگ ان چیزوں کو بخوبی جانتے ھیں مگر یہ یاد دھانی اس لیے کرنے پڑرھے تا کہ بلوچستان کے ھزارہ قبایل کے ساتھ جو ھو رھے ھیں، اسکا کچھ موازنہ پیش کرسکوں اور حکومت، سیاسی جماعتوں، قبایلی عمائدین، علمائے دین، دانشور اور روشنفکر طبقے، صحافی حضرات، وکلا، تاجر اور معاشرہ کے ھر صاحب احساس بندہ کو انکے ذمہ داریوں کا احساس دلاسکوں، اور یہ بھی بتاسکوں کہ فیس بوک پر افسوس کرنے، اخبار میں مذمتی بیان دینے اور فاتحہ پڑھنے سے آگے بڑھ کر، آپ بہت کچھ کرسکتے ھیں؛
آپ پچھلے ڈیڑھ دھائی سے زیادہ، بریکنگ نیوز کے صورت یا کچھ لائنوں پر مشتمل خبروں کے ذریعے، کوئٹہ اور مستونگ میں ھزارہ مسافر، مزدور، ڈرائیور، سبزی فروش، علاج کے کیلئے آنے جانے والے مریضوں، طالبعلموں، استادوں، تاجر پیشہ حضرات، زائرین، ڈیوٹی کیلیے جانے والے سرکاری ملازمین، رشتہ داروں سے ملنے، یا سودا خریدنے کیلیے آنے جانے والے خواتین اور بچوں کے قتل سے ضرور آگاہ ھوتے رھيں ھونگے۔ چند منٹوں کیلئے، شاید آپکا ضمیر جاگتا ھوگا اور آپ افسوس کیے ھونگے، یا شاید مذمت کیلیے سوشل میڈیا میں چند جملے بھی لکھ چکے ھونگے، لیکن، ھزارہ کے قتل عام سے بڑے مسائل آپ کے توجہ کے طلبگار تھے، جیسے کہ، انڈیا اور پاکستان کے فائنل میچ، شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات، راحیل شریف کے ریٹائرمنڈ کے بعد بیرون ملک ملازمتیں، قندیل بلوچ کے قتل کے بعد لیجنڈ بننا، ایران اور سعودی کے جھگڑے اور اس طرح کے بیشمار ملکی مسائل جو یقینا پانچ لاکھ کے قریب لوگوں کے جسمانی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی قتل عام اور درد و کرب سے کہیں گنا زیادہ اھمیت کے حامل تھے۔
جو ھزارہ، اپنے چھوٹے سے آبادی کے تناسب سے دفاع، کھیل، انتظامی امور اور تعلیم میں صوبہ اور قوم کو قدرآور شخصیات ديے تھے اور جو آج بھی بیرون ملک سے اپنے پسینہ کی کمایی بھیج کر، صوبہ اور ملک کے اکانومی میں اپنے حصے ڈال رھے ھیں، انکے طالبعلم شہر اور صوبہ کے تعلیمی اداروں میں نہیں جاسکتے، انکے تاجر، شہر سے اپنے کاروبار کو لپیٹ کر، اپنے گلی محلوں میں کاروبار کرنے پر مجبور ھیں، والدین اپنے بچوں کے حفاظت کیلئے اپنے گھر بیچھ کر، جمع پونجھی خرچ کرکے، یا قرضہ لیکر، انہیں ملک سے باھر بھیجنے پڑھ رھے ھیں، جن نوجوانوں کو پڑھ کر صوبہ کے ترقی میں اپنے کردار ادا کرنے تھے، وہ کیمپوں میں ٹھوکرے کھا رھے ھیں، جن گھروں سے باپ، بیٹا اور بھائی چھینے گئے ھیں اور جو لوگ زخمی ھوئے ھیں، انکے درد، کھرب اور معاشی مسايل سے کس کو خبر ھیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس جیسے اور مسایل. ان سب کے باوجود، ھزارہ لوگوں کو حفاظت کے نام پرانکے علاقوں تک محدود کیے ھیں۔ شہر کے پارکوں اور صوبہ کے صحت افزا مقامات میں سیر کے بجائے، لوگ قبرستان میں چہل قدمی کیلئے جاتے ھیں اور دنیا میں شاید، کوئیٹہ کے ھزارہ واحد لوگ ھیں کہ انکے قبرستان ھی انکے چہل قدمی کےلیے باقی بچے ھیں.
سئوال یہ ھے، کہ ھزارہ قبايل کو احساس محرومی اور بیگانگی سے نکالنے کیلئے، آپ کیا کرسکتے ھیں؟ انہیں انکے احساس امن کو دوبارہ کیسے بحال کیا سکتا ھے اور انہیں انکے محصور علاقوں سے نکال کر، دوبارہ تعلیمی اداروں، سپورٹس گراونڈز، شہر کے کاروبار ميں شرکت، وغیرہ، وغیرہ کیلیے، آپ بحیث ایک انسان کیا کرسکتے ھیں.
یقین مانیئے، اگر آپ چاھے، آپ بہت کچھ کرسکتے ھیں؛
آب بول سکتے ھیں. آپ سئوال کرسکتے ھیں. آپ لکھ سکتے ھیں، اور اس سے بہت کچھ بدل سکتے ھیں؛
آپ سیاسی جماعتوں کو بول سکتے ھیں کہ نفرت پھیلانے کو قابل سزا جرم بنانے کے لیے قانون سازی کرے تا کھلے عام نفرت اور اشتعال پھیلانے کو روک سکے، آپ حکومت سے اور معاشرہ کے با اثر افراد سے پوچھ سکتے ھیں کہ وہ ھزارہ قبایل کو محاصرہ سے نکالنے اور انکو معاشرہ میں دوبارہ فعال کرنے کیلیے کون سے حوصلہ افزا اقدامات کئے ھیں اور کرینگے. آپ لکھ کر لوگوں میں آگاھی پھیلا سکتے ھیں.
میں، یہ مانتا ھوں کہ صبح کو اٹھ کر، مغربی معاشروں جیسے اخلاقی جرات تو نہیں پیدا کرسکتے کہ معاشرہ کے تمام محروم اور کمزور طبقات اپنے کو کمتر اور مجبور محسوس نہ کرے، لیکن، کم از کم ھم جن اقدار کا پرچارک ھیں، وھاں سے تو شروع کرسکتے ھیں۔ چاھے آپ قبایلی روایات کا پرستار ھیں، یا اسلامی اقدار کا پیروکار یا آپ پاکستان کے آئین کا وفادار. ڈیڑھ دھائی سے جاری قتل عام اور اجتماعی قید آپ کے روایات، اقدار اور آیین کے روح پر بہت بڑا سئوالیہ نشان ھے. آپ اسکو نظر انداز کرسکتے ھیں، تاویلات پیش کرسکتےھیں، لیکن، ایک ایسے دور میں، جہان مغربی معاشرے، دنیا کے بھر کے خستہ حال لوگوں کو پناہ دے کر، انکو اپنے اپنے معاشروں کا حصہ بنانے کے کوشش کرتے ھیں، آپ اپنے ھی معاشرہ کے لوگوں کو، شکل، زبان اور مسلک کے بنیاد پراجتماعی سزا دے کر، کسی بھی معیار کا دعوی نہیں کرسکتے.