بلوچستان کے ھزارہ قبایل کے پندرہ سالوں کے قتل عام میں، نہ تو کسی مجرم کو سزا ھوئی ھے، اور نہ ھی کسی قسم کی قانون سازی. قاتل آزادی سے گلی، کوچوں، بازاروں، جلسوں، مساجد، مدرسوں، اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ھزارہ قبایل کے خلاف نفرت کے کھلے عام تبلیغ کرتے ھیں۔ نفرت کے یہ تبلیغ، ھزارہ قبایل کے قتل عام کے ایک بنیادی وجہ ھے اور جو بھی شخص، کسی بھی حیثیت میں، نفرت کے تبلیغ کرتے رھے یا کر رھے ھیں، وہ اس قتل عام کے جرم میں شریک ھیں۔ حکومت، پندرہ سالوں میں کسی قاتل کو سزا نہیں دلا سکی اور اسکے بجائے، حفاظت کے نام پر ھزارہ قبایل کے علاقوں، ھزارہ ٹاون اور علمدار روڈ کو عملا کیمپ میں بدل دیئے ھیں۔ کیا پاکستان میں قاتلوں کے گرفتاری اور سزا نہ دلوانے کے ناکامی پر قانون نافذ کرنے والوں کے نااھلی اور حکومت کیلئے خساير کے اذالے کے قوانین موجود ھیں؟
کیا اسکا وقت نہیں آیا ھے کہ صوبایی اور قومی سیاسی جماعتیں مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر، ھزارہ قبایل کے خلاف نفرت پھیلانے کو قابل سزا جرم بنانے کی قانون سازی کرے؟ کیا اسکا وقت نہیں آیا ھے کہ پاکستانی عوام، حکومت سے ھزارہ قبایل سے معافی اور انکے نقصانات کو پورا کرنے کا مطالبہ کرے؟ مانتا ھوں کہ یہ بڑے مطالبات ھیں، مگر انکے حصول کیلئے کم از کم جدوجہد تو کرے۔ اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں سے درخواست کرتا ھوں کہ وہ اپنے نمایندوں سے قانون سازی کا مطالبہ کرے اور سوشل ایکٹویسٹ سے اپیل کرتا ھوں کہ وہ قانون سازی کیلیے مہم چلائے۔۔۔
No comments:
Post a Comment