کل رات کو علی آباد روڈ پر کچھ نوجوانوں کو خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنے، اور انکے تصاویر بنانے پر مشتعل ھجوم نے پکڑ کر تشدد کئے، جس کے نتیجہ میں، غالبا ایک شخص جان بحق، اور دو زخمی ھوئے۔ اس واقعے پر اظہار رائے کرنا، "آ بیل، مجھے مار" کو دعوت دینے کے مترادف ھیں، کیونکہ، لوگ اس معاملے کو معاشرتی مسئلے کے بجائے، نسلی، لسانی اور مسلکی بنیادوں پر دیکھنے کو ترجیح دیتے ھیں۔ مجھے اس واقعے کے تفاصیل معلوم نہیں، اسلئے میں افواھوں کو پھیلانے اور گماں آرائی کرنے کے بجائے، اس واقعے سے متعلق اپنے ذاتی خیالات اور مشاھدات کو شیئر کرونگا
پہلی بات یہ ہے، کہ اس غیر انسانی عمل کو لسانی یا ایک برادری کے مسئلے کے طور پر دیکھنا، اسکے نیچے چھپے مسائل کو نظر انداز کرنے کے برابر ھیں۔ میں بھی اسی معاشرے میں بڑا ھوا ھوں، اسلئے مجھے پتہ ہے، کہ اس نیم قبائلی معاشرے میں لوگ اپنے نسلی اور مذھبی تعصب کو وقتی تسکین دینے کی کوئی فرصت ھاتھ سے جانے نہیں دیتے ھیں۔ اور یہ افسوسناک رویہ، اس تیزی سے بدلتے معاشرے میں جنم (اور تیزی سے پنپنے) والے مسائل پر کھلے عام گفتگو اور انکے حل کے اسباب ڈھونڈنے کو تقریبا ناممکن بنائے ھیں۔ لوگ ایک شہر میں تو رھتے ھیں، لیکن، انکے تعلق صرف اپنے قبیلے تک محدود ھیں۔ کرونا کے وباء کے دوران، قرنطین سینٹر کو جلانے، اور ھسپتالوں سے رجوع کرنے والے مریضوں کو انکے لسانی اور نسلی شناخت کی وجہ علاج کرنے سے انکار کرنے کے غیر انسانی واقعات اس شہر آفت کے حقیقی چہرے ھیں۔
اس تمہید کا مقصد، کل ھونے والے اس غیر انسانی عمل کو جواز دینے کے کوشش نہیں۔ پچھلے بیس سالوں کے قتل عام کے دوران، اس چھوٹے سے کمونیٹی نے بہت منظم کوشش اور صبر و استقامت سے، اپنے نوجوانوں کو ری ایکشنری بننے سے روکنے میں کامیاب رھے۔ انواع و اقسام کے شدت پسند گروھوں کے نشانے پر رھنے، اور ایک اچھے مستقبل کے سارے دروازے بند ھونے کے باوجود، اپنے جوانوں کو شدت پسندی کے لعنت سے بچائے رکھا۔ کیونکہ، انہیں معلوم تھے، کہ شدت پسندی اور تعصب وہ اندھا بلا ھے جو وقت کے ساتھ ساتھ، اپنے اور پرائے میں فرق کرنے کے صلاحیت کھو دیتے ھیں۔ کل کے ھونے والے واقعہ کو ھمیں، دو دھائیوں کے کامیاب کوششوں میں پڑنے والے دراڑ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ھیں، اور یہ ھم سب کیلئے انتہائی تشویش کے سبب ھونے چاھئیے۔ معاشرتی تبدیلی کو تشدد کے ذریعہ روکنے، یا معاشرتی مسائل کو تشدد کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش، ایک خطرناک رجحان ہے۔ (مذمتی بیانات، لعن طعن اور مخاصمت سے وقتی تسکین تو ھوسکتے ھیں، لیکن اصل مسئلہ باقی رھیگا، اور شاید بڑھ کر ناسور بن جائیگا) میں سمجھتا ھوں، کہ کل کا واقعہ بہت سے مسائل کو کافی لمبے عرصے سے دبائے رکھنے کا نتیجہ ہے۔ میں یہاں دو باتوں کی نشاندھی کو ضروری سمجھتا ھوں
۔ کوئٹہ ایک نیم قبائلی معاشرہ ہے، جہاں قبائل الگ محلوں میں رھتے ھیں، اور لوگوں کے اپنے اطوار ھیں، جنہیں وہ بہت عزیز رکھتے ھیں۔ بدقسمتی سے، یہاں لوگوں کے ثقافتی دن اور انکے زبان کے دن تو منائے جاتے ھیں، لیکن انکے اقدار کے بارے میں آگہی اور انکے احترام نہیں سکھائے جاتے ھیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کے عزتوں سے مذاق، اور اپنے تعصبات کے تسکین کیلئے لوگوں کے عزت نفس سے کھیلے جاتے ھیں۔ اس سے کافی لوگوں میں اشتعال پائے جاتے ھیں۔ اسی طرح، اس نیم قبائلی معاشرے میں، جب لوگ انکے محلوں میں گھومنے آتے ھیں، تو وہ انکے معاشرتی اقدار کو نظر انداز کرتے ھیں۔ ایسے میں تشدد، ایک طرح سے شنوائی کیلئے توجہ دلاو نوٹس ہے ۔ میں پھر سے دھرانا چاھتا ھوں، میں تشدد کے خلاف ھوں اور یہاں میرا مقصد ایک غیر انسانی عمل کو جواز فراھم کرنا مقصد نہیں، بلکہ، میں چاھتا ھوں، کہ جذبات کے رو میں بہہ کر، اگر ھم، اصل مسئلے کو جوں کے توں چھوڑا، تو اسطرح کے واقعات ھوتے رھینگے۔ برائے مہربانی، لوگوں کے زبان اور ثقافت کے ساتھ ساتھ، انکے اقدار کے احترام کو منایا، اور انکے احترام کو سکھایا جائیں۔ یہ شہری زندگی کا لازمہ ہے، اور کوئٹہ کو آج نہیں، تو کل پرسوں ضرور عمارتوں کے شہر سے گذر کر، انسانوں کے شہر بننے کے سفر طے کرنا پڑیگا۔
۔ دوسری بات یہ کہ، پچھلے کئی سالوں سے یہ چھوٹی سی کمونیٹی حکومت سے اپیل کرتے رھے ھیں کہ دو دھائیوں کے قتل عام، مہاجرت کے وجہ سے اپنے عزیزوں سے دور رھنے کے تکالیف، روزگار، تفریح اور بہتر تعلیم کے مواقع کھونے کی وجہ سے مستقبل سے ناامید نوجوانوں، اور سب جیل میں قید رھنے کی وجہ سے، لوگ انتہائی ذھنی دباو کے شکار ھوکر نت نئی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ھو رھے ھیں۔ نیم قبائلی معاشرے میں، نفسیاتی بیماری گالی کے برابر سمجھے جاتے ھیں اور لوگ، اس کے بارے میں بات کرنے اور علاج کرنے کے بجائے، تکلیف میں جینے اور دوسروں کو تکلیف دینے کو ترجیح دیتے ھیں۔ ھونے تو یہ چاھئے تھی، کہ قتل عام کے متعلق، حکومت اپنے تفصیلی موقف کو لوگوں کے سامنے رکھتے، اور لوگوں کو انصاف کے فراھمی میں حکومتی کارکردگی سے وقتا فوقتا آگاھی دیتے رھتے۔ دو دھائی کے کمر شکن اقتصادی نقصان، آئسولیشن سے باھر نکالنے، اور انکو پھر سے صوبے کے اقتصادی چرخے میں فعال کردار کرنے کیلئے بھرپور اقدامات، اور اسی طرح پچھلے دو دھائیوں میں غیر معمولی حالات میں رھنے کی وجہ سے مختلف جسمی اور نفسیاتی بیماریوں کے شکار اس کمونیٹی کے دوبارہ بحالی کیلئے، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور علاج و معالجے کے سہولیات فراھم کرتے، لیکن، ان سب اقدامات کے بجائے، انہیں سب جیل میں قید کرکے بھلا گیا۔ آنکھیں بند کرنے سے مسائل غائب نہیں ھوجاتے۔
کل کا یہ انتہائی قابل مذمت اور غیر انسانی واقعہ، ان سب مسائل کی موجودگی کا ایک اظہار تھا۔ جو کمونیٹی پچھلے دو دھائیوں سے اپنے آپ کو منظم رکھنے اور سارے مسائل کے انبار کو کسی نہ کسی طرح سے قابو میں کئے رکھا تھا۔ اب لگ رھا ہے، کہ یہ بریکنگ پوائنٹ تک پھنچ رھاہے۔ ایک ھزارہ ھونے کے ناطے، میرے لئے، یہ ایک ڈورانے خواب سے کم نہیں۔۔۔