One's personality is both a composition and reflection, but if I have to choose one of them, I will choose reflection as the "self" is more important to me than "me". One's composition may change, walking across the cultural landscapes and climbing the social ladder but one's self is tied to one's reflections. The fun part is that reflections are not bound to "Time-Space" barriers ( it is not time-space) and respective mental constructs, which have grown so thick over ages, that they had reduced the image of humans to Sisyphus, rolling different sizes of boulders on hills of different heights.… As the name of this Blog indicates, knols are my perspectives on topics of interests, sweet/bitter experiences or just doodling :)

Saturday, August 6, 2022

میں نے عمران خان کی مخالفت کیوں کی؟



میں اس جنریشن سے تعلق رکھتا ھوں، جو اسلامی انقلابات، کمونیزم، رنگین انقلابات، عربی بہار، اور "ھم 99 فیصد ھیں" جیسے انقلابات کے آتشفشاں اور پھر انکے لاوے کو پتھر بنتے دیکھے ھیں۔ جب آپ کسی عمل سے بار بار گزرتے ھیں، تو اس عمل کے بارے میں، آپ میں ایک چھٹی حس بنتے ھیں، جو بغیر زیادہ سوچے بتاتے ھیں، کہ یہ عمل درست سمت جار رھے ھیں، یا اسکے ساتھ کوئی مسئلہ ھے:

پہلی بار جب میں نے "ریاست مدینہ" کی وعدے وعید سنا، تو مجھے اپنے چھٹی حس کی ضرورت ھی نہیں پڑھی، کیونکہ اس "مدینے فاضلہ" کو بنانے کی سب سے بنیادی ضرورت، یعنی اس کے بنانے والے انسان مجھے کہیں نظر نہیں آرھے تھے۔ حضور (ص) 13 سال اپنے اصحاب کے تربیت کے بعد، اس قابل ھوگئے اس ریاست مدینہ کے داغ بیل ڈال سکیں۔ اس ریاست کے داغ بیل ڈالنے والے لوگوں کے ایسے تربیت ھوئے تھے، کہ اپنے گھروں، اور کاروباروں کو مدینہ میں پناہ لینے والے مہاجرین کے ساتھ برابر تقسیم کئے۔ مجھے تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تو چھوڑ، پورے پاکستان میں ایسے لوگ نظر نہیں آرھے تھے۔ ھاں مال غنیمت کے کیلئے لڑنے مرنے والے لوگوں کے بہتات نظر آتے تھے، اور اب بھی نظر آتے ھیں۔ لوگوں کے تربیت کئے بغیر، انکو "ریاست مدینہ" کے پیچھے لگانا، ایسے ھی تھے، کہ آپ لوگوں سے پوچھے کہ آپ کیا بننا چاھتے ھیں، اورجس نے ڈاکٹر بننے کی خواھش کی، انکو میڈیکل اسکول بیجھنے کے بجائے ھسپتال میں بیج کر، ان سے لوگوں کے علاج، اور جس جس نے انجنئیر بننے کی خواھش کی، انہیں انجنئیرینگ اسکول کے بجائے، تعمیرات بنانے کو کہے۔ جسطرح، بغیر تربیت کے "ڈاکٹر" لوگوں کو گھر کے بجائے، قبرستان بھیج سکتے ھیں، اسی طرح، بغیر تربیت کے انقلاب کے دعویدار لوگ ملک کو ترقی کے بجائے، بحرانوں کے دلدل میں پھنسوا دیئے۔

انقلابوں کے آثارے قدیمہ میں، "ریاست مدینہ" کے اضافہ کو بھی دیکھ لیا۔ حضور کے ریاست مدینہ میں لوگوں کے اخلاقی تربیت اتنے بلند ھوگئے تھے، کہ وہ مہاجرین کے ساتھ گھر اور کاروبار تقسیم کئے، اور عمرانی ریاست مدینہ نے دوستوں کے دوستیاں اور دیسیوں کے تھوڑے بہت تہذیب مٹادیے۔

اس چھوٹی سی تمہید کی ضرورت اسلئے پیش آئی، کیونکہ گذشتہ چند دنوں میں، مجھے "عارف نقوی" سے متعلق تین کے قریب، آرٹیکل پڑھنے کا موقع ملا۔ پہلی آرٹیکل میں، پراوین سوامی، عمران خان کے سابقہ بیوی ریحام خان کا حوالہ دیتا ھے۔ عمران خان نے ریحام خان کو بتا دیا تھا کہ عارف نقوی نے اسکے 2013 کے الیکشن کے %66 حصے کو فنڈ کئے تھے٭۔ جیو ٹی وی آرٹیکل میں، عارف نقوی بتا دیتے ھیں کہ، اس نے عمران خان کے 2013 کے الیکشن کمپیئن کیلئے دو میلین، ایک لاکھ، اکیس ھزار پانچھ سو ڈالر پی ٹی آئی کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کئے تھے٭٭۔

تیسری اور سب سے اھم آرٹیکل٭٭٭، عارف نقوی کے عالمی فراڈ سے متعلق ھیں۔ جس طرح عمران خان نے "ریاست مدینہ" کا وعدہ کرکے پاکستانی عوام کو چونا لگایا، عارف نقوی نے، "ایمپیکٹ انویسٹمنٹ"، "باضمیر سرمایہ داری نظام" کے دلنشین وعدوں کیساتھ، امریکی حکومت اور بیل گیٹس جیسے سرمایہ کاروں کو 385 میلین ڈالر کا چونا لگا چکے ھیں۔ دنیا کے چوٹی کی امیر لوگوں اور باقی لوگوں کے درمیاں وسائل کے تقسیم کے ناقابل یقین فاصلے سے اٹھنے والے عالمی مسائل کو دیکھ کر، دنیا کے واحد معاشی نظام کو چلانے والوں میں احساس جرم پائے جاتے ھیں۔ عارف نقوی جیسے چالاک لوگ، اس احساس کو کیش کرنے کیلئے، ان سے وعدے کئے تھے، کہ اگر افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے ھیلتھ سروسز میں سرمایہ کاری کریں، تو  منافع کمانے کے علاوہ، وہ دنیا کو بہتر بنانے میں مدد بھی کرسکتے ھیں۔ وعدے تو غریبوں کیلئے ھسپتال بنانے کے تھے، لیکن، شاہ خرچیاں ذاتی خوشگذرانیوں اور سیاستدانوں پر ھوئے تھے۔ بطور مثال، ڈیوس میں نواز شریف کے ایک ظہرانے کیلئے، عارف نقوی نے 348،000 ڈالر اڑائے تھے۔


عمران خان اور عارف نقوی جیسے انقلابیوں نے کوئی مثبت تبدیلی تو نہ لاسکے، لیکن عوام میں تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے بارے میں جو تھوڑی بہت نیک خواھشات تھے، وہ بھی مروا ديئے۔




No comments:

Post a Comment