سوشل میڈیا پر، اشعار کے تشریحات پڑھ کر، متاثر ھوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اسی تاثر کے زیر اثر، حضرت اقبال (رح) کے دو مصرعے کے تشریح پیش خدمت ھیں:
روح اقبال (رح) سے معذرت کیساتھ؛
اسی تاثر کے زیر اثر، حضرت اقبال (رح) کے دو مصرعے کے تشریح پیش خدمت ھیں:
روح اقبال (رح) سے معذرت کیساتھ؛
اقبال:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
تشریح:
شاید اقبال کے استاد، میر حسن نے زبان کے تدریس کے دوران، صوفی اشعار کے توضیحات میں، ننھے اقبال کو یہ سیکھایا تھا کہ انسان کے اصل تلاش، اپنے آپ کو پانا ھے۔ ننھے اقبال کے دل کو یہ بات لگی ھوگی، اور وہ اپنے آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، مغربی علوم کے مرکز، لندن پہنچ گئے۔ وھاں اسکو، اقبال کے بجائے، بیرسٹری مل گئی۔ وھاں سے مایوس ھوکر، وہ نیٹشے کے سرزمین جرمنی، اس امید کیساتھ چلے گئے، کہ وھاں اسکو اقبال نیٹشے کے "سوپر مین" کہیں نظر آئے، مگر وھاں اسکو فلسفہ میں پی ایچ ڈی کے ڈگری سے ٹرخایا گیا۔
مغربی تہذیب سے مایوس ھوکر، اپنے آپ کو پانے کیلئے، اقبال نے اسلامی تہذیب کے شاندار ماضی کے یادگار، اندلس کا رخ کیا۔ وھاں اقبال کو اقبال کہاں سے ملتا، جہاں کے مساجد کو پیش امام اور نمازی تک نہیں ملتا۔ آخر تنگ آکر، اقبال نے واپس ھندوستان لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ ھندوستان میں، اقبال کو اگراقبال نہیں ملتا، پھر بھی، کم از کم، کھاںے کو آم، سننے کو مولوی حضرات اور دیکھنے کو خواب اور شعر بازی کیلئے، کافی سارا فارغ ٹائم ملا۔ 😜
مغربی تہذیب سے مایوس ھوکر، اپنے آپ کو پانے کیلئے، اقبال نے اسلامی تہذیب کے شاندار ماضی کے یادگار، اندلس کا رخ کیا۔ وھاں اقبال کو اقبال کہاں سے ملتا، جہاں کے مساجد کو پیش امام اور نمازی تک نہیں ملتا۔ آخر تنگ آکر، اقبال نے واپس ھندوستان لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ ھندوستان میں، اقبال کو اگراقبال نہیں ملتا، پھر بھی، کم از کم، کھاںے کو آم، سننے کو مولوی حضرات اور دیکھنے کو خواب اور شعر بازی کیلئے، کافی سارا فارغ ٹائم ملا۔ 😜
بدقسمتی سے، اسوقت ذاتی کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون ایجاد نہیں ھوا تھا، اسلئے اقبال کو کوئی لائیک اور ھارٹ نہ ملا۔ اگر اقبال کو انٹرنیٹ میسر ھوتے اور وہ بلاگ لکھتے، فیس بوک اسٹیٹس دیتے، ٹویٹ کرتے اور یوٹیوب پر وی لاگ کے بناتے، تو اقبال کے پوسٹس کو کوئی نہ کوئی شخص لائیک یا ھارٹ سے ضرور نوازتے، اور اقبال کو یہ شعر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتے،
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد