One's personality is both a composition and reflection, but if I have to choose one of them, I will choose reflection as the "self" is more important to me than "me". One's composition may change, walking across the cultural landscapes and climbing the social ladder but one's self is tied to one's reflections. The fun part is that reflections are not bound to "Time-Space" barriers ( it is not time-space) and respective mental constructs, which have grown so thick over ages, that they had reduced the image of humans to Sisyphus, rolling different sizes of boulders on hills of different heights.… As the name of this Blog indicates, knols are my perspectives on topics of interests, sweet/bitter experiences or just doodling :)

Tuesday, August 30, 2016

دیسی ڈونلڈ ٹرمپ

ٹی وی، میگزینوں، اخباروں، روزمرہ نشست و برخاستوں اور سوشل نیٹ ورکز پر روز ڈونلڈ ٹرمپ پرپریشان کن تبصروں اور تجزیوں کے باوجود، آپ نے مجھے ٹرمپ پر کبھی تبصرہ کرتے نہیں دیکھے ھونگے. اسکی وجہ میرا "دیسی لبرلزم" یا "پردیسی مصلحت پسندی" نہیں، بلکہ اسکی وجہ وہ ھزاروں "دیسی ٹرمپ" ھیں جسے ميں بچپن سے، ھر روز سنتا، دیکھتا چلا آرھا ھوں. آج، ایسا ھی ایک بظاھر پڑھے لکھے اور بظاھر لبرل "دیسی ٹرمپ" کو میں نے اس لیے "ان فرینڈ" کیا، کیونکہ موصوف فرما رھے تھے کہ بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ ھزارہ کمیونٹی ھے اور جب تک اس کمیونٹی کو مٹائینگے نہیں، اس وقت تک بلوچستان ترقی نہیں کرسکتا ("ان فرینڈ" کرنے کا مقصد، نفرت کو ریڈ کارڈ کرنا ھے ).  حقیقت یہ ھے کہ چند گلیوں پر مشتمل ھزارہ آبادی والے مری آباد اور ھزارہ ٹاون میں، اگر کچھ پکے مکانات بنے ھیں وہ صوبائی يا مرکزی حکومتوں کے فنڈز سے نہیں بنے ھیں، بلکہ ان ھزاروں جوانوں کے پسینے کے کمائی سے بنے ھیں جو اپنے پیاروں سے دور، پردیسی ملکوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ھیں.  

شاید کچھ دوست یہ سوچھے کہ میں ری ایکشن دکھا کر، نہ چاھتے ھوئے، انٹرنیٹ پر نفرت پھیلانے والوں کے لیے لاوڈ سپیکر کا کام کررھا ھوں. ان دوستوں کے خدمت میں پیشگی عرض ھے کہ یہ نفرت بہت پرانی اور گہری ھے. ان نفرتوں سے چشم پوشی کے وجہ سے یہ ایک ناسور کا شکل اختیار کر چکا ہے. مثالیں دینے کےلیے، میرے پاس ایسے سینکڑوں واقعات ھیں،  جن کا میں چشم دید گواہ ھوں. ان میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ھے؛

1998 کے گرمیوں کی بات ھے. اسوقت کوئٹہ امن کے نخلستان تھے. لوگ اپنے اپنے چھوٹے بڑے دنیاوں میں گم تھے. والدہ صاحبہ کے طبیعت ناساز تھے اور میرے چھوٹے دنیا کے سب سے بڑی خواب یہ تھی کہ میں کسی دن اس قابل بنوں کہ والدہ صاحبہ کی بہترین علاج کرسکوں. بہر حال، جتنے ھمارے وسائل اجازت دیتے، کبھی والد صاحب اور کبھی میں ڈاکٹروں اور ھسپتالوں کے چکر کاٹتے رھتے. ایک ایسی ھی چکر میں، میں والدہ صاحبہ کو ایک سرکاری ھسپتال لے گیا. حسب معمول،  ڈاکٹر کے کمرے کے باھر مریضوں کے ایک لمبی قطار لگی ھوئی تھی. ھم بھی، ھسپتال کی پرچی اور والدہ کی لیبارٹری ٹیسٹوں اور ڈاکٹروں کے نسخوں کے پلندے ھاتھ میں لیے، قطار میں کھڑے ھوگئے. گئی گھنٹے، کھڑے کھڑے انتظار کے بعد آخر ھمارے باری آئے. ڈاکٹر صاحب اپنے چند مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے. میں نے سلام کیا. ڈاکٹر نے ھمارے طرف دیکھے اور کچھ کہے بغیر پھر بھنڈار میں مصروف ھوگئے. دروازہ کے قریب ایک بوڑھا ھزارہ کھڑا تھا. میں نے ان سے خیریت دریافت کی تو بوڑھا شخص کپکپاتی آواز میں کہا کہ  اسکے نمبر بہت پہلے آیا تھا، لیکن ڈاکٹر نے یہ کہتے ھوئے اسے معائنہ کرنے سے انکار کیا کہ، "جاو، افغانستان میں اپناعلاج کرو. یہ ھسپتال بلوچستان کے ملکیت ھے." اس بوڑھے شخص نے یہ بھی بتایا کہ میں نے جب ڈاکٹر کو اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو ڈاکٹر غصہ میں  کہا کہ میں تو اس کاغذ کے ٹکڑے کو مانتا ھی نہیں. جب میں نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیشہ کا احترام کرے تو ڈاکٹر صاحب، سیاسی نعرہ بازی پر اتر آئے.

لوگ صرف مولویوں کو نفرت کے پرچارک کے طور پر دیکھتے ھیں. کاش صرف مولوی "کنوینیئس کے مسلمان" ھوتے تو ھمارے غم آدھے ھوتے۔ بدقسمتی سے ، ھمارے ھاں  "دیسی ٹرمپ" کی کوئی کمی نہیں، جو بسا اوقات اپنے " کنوینیئس کے لبرلزم" کے احسانات بھی جتاتے رھتے ھیں.


نفرتیں اتنے عادی ھوگئے ھیں کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ھیں کہ اپنے قوم سے، دین سے، اور نظریات سے محبت کے اظہار کا صرف ایک ھی طریقہ ھے، اور وہ ھے دوسروں سے نفرت. حالانکہ حقیقت یہ ھے کہ اپنے لوگوں کے لیے دشمن کمانے والے، اپنے لوگوں کا خیر خواہ نہیں ھوسکتے.